ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے
ہم دیکھتے ہیں تم میں خدا جانے بتو کیا
اس بھید کو اللہ کی قسم کہہ نہیں سکتے
رسوائے جہاں کرتا ہے رو رو کے ہمیں تو
ہم تجھے کچھ اے دیدۂ نم کہہ نہیں سکتے
کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر
جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے
ہے صبر جنہیں تلخ کلامی کو تمہاری
شربت ہی بتاتے ہیں سم کہہ نہیں سکتے
جب کہتے ہیں کچھ بات رکاوٹ کی ترے ہم
رک جاتا ہے یہ سینہ میں دم کہہ نہیں سکتے
اللہ رے ترا رعب کہ احوال دل اپنا
دے دیتے ہیں ہم کر کے رقم کہہ نہیں سکتے
طوبائے بہشتی ہے تمہارا قد رعنا
ہم کیونکر کہیں سرو ارم کہہ نہیں سکتے
جو ہم پہ شب ہجر میں اس ماہ لقا کے
گزرے ہیں ظفرؔ رنج و الم کہہ نہیں سکتے
غزل
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
بہادر شاہ ظفر