ہم ان سے کر گئے ہیں کنارا کبھی کبھی
دل ہو گیا ہے جان سے پیارا کبھی کبھی
راتوں کی خامشی میں مرے دل پہ رکھ کے ہاتھ
لیتی ہے کائنات سہارا کبھی کبھی
اس طرح بھی وہ آتے ہیں آغوش شوق میں
گرتا ہے جیسے ٹوٹ کے تارا کبھی کبھی
میں نے جہان شوق کو بے جذبۂ نمود
اپنے ہی دیکھنے کو سنوارا کبھی کبھی
جس طرح سرسرائے چمن میں شمیم گل
اس طرح اس نے مجھ کو پکارا کبھی کبھی
اب کوئی کیا کرے جو بہ صد سعئ ضبط راز
آ جائے لب پہ نام تمہارا کبھی کبھی
اب اہل شہر کس لیے شاداںؔ سے ہیں خفا
آتا ہے شہر میں وہ بچارا کبھی کبھی
غزل
ہم ان سے کر گئے ہیں کنارا کبھی کبھی
شاداں اندوری