ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے کچھ ان کا اشارا ہوتا ہے
کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر
یا شام غریباں کا جگنو یا صبح کا تارا ہوتا ہے
ہم دل کو لیے ہر دیس پھرے اس جنس کے گاہک مل نہ سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے ہم کو تو خسارا ہوتا ہے
دفتر سے اٹھے کیفے میں گئے کچھ شعر کہے کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے
غزل
ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
ابن انشا