EN हिंदी
ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے | شیح شیری
hum un se agar mil baiThe hain kya dosh hamara hota hai

غزل

ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے

ابن انشا

;

ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے کچھ ان کا اشارا ہوتا ہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر
یا شام غریباں کا جگنو یا صبح کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لیے ہر دیس پھرے اس جنس کے گاہک مل نہ سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے ہم کو تو خسارا ہوتا ہے

دفتر سے اٹھے کیفے میں گئے کچھ شعر کہے کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے