ہم ان کو چھین کر لائے ہیں کتنے دعوے داروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
ہمارے زخم دل داغ جگر کچھ ملتے جلتے ہیں
گلوں سے گل رخوں سے مہوشوں سے ماہ پاروں سے
زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے
سنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
گپھاؤں سے پہاڑوں سے بیابانوں سے غاروں سے
برابر ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے
کنوؤں سے پن گھٹوں سے ندیوں سے آبشاروں سے
کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے فریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے
غزل
ہم ان کو چھین کر لائے ہیں کتنے دعوے داروں سے
کیف بھوپالی