ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں
اور وہ ہیں کہ اس پر بھی برا مان رہے ہیں
یہ لطف تو دیکھو کہ وہ محفل میں مری سمت
نگراں ہیں کہ جیسے مجھے پہچان رہے ہیں
ہم کو بھی تو واعظ ہے بد و نیک میں تمیز
ہم بھی تو کبھی صاحب ایمان رہے ہیں
ممکن ہے کہ اک روز تری زلف بھی چھو لیں
وہ ہاتھ جو مصروف گریبان رہے ہیں
یہ سچ ہے کہ بندے کو خدا دہر میں یوں تو
مانا نہیں جاتا ہے مگر مان رہے ہیں
وہ آئے ہیں اس طور سے خلوت میں مرے پاس
جیسے کہ نہ آنے پہ پشیمان رہے ہیں
غزل
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر