ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال
ہاں کوئی ہوتا بھی ہوگا بھولنے والا خیال
ایک پتھر کی طرح سے ڈوبتا جاتا ہے دل
ہو رہا ہے اور گہرا اور بھی گہرا خیال
آب حیراں پر کسی کا عکس جیسے جم گیا
آنکھ میں بس ایک لمحے کے لئے ٹھہرا خیال
پھر تو کب اپنے رہے کب کار دنیا کے رہے
جب سے ہم پر چھا گیا اس جان دنیا کا خیال
نقش حیرت ہو گئی پھر اپنی حیرانی پہ چشم
زندگی آئینہ تھی اور آئینہ خانہ خیال
شام گہری ہو کے پھر اتری پھر اس دل کو لگا
اک خیال ایسا خیال ایسا خیال ایسا خیال

غزل
ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال
ثمینہ راجہ