EN हिंदी
ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال | شیح شیری
hum to yun uljhe ki bhule aap hi apna KHayal

غزل

ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال

ثمینہ راجہ

;

ہم تو یوں الجھے کہ بھولے آپ ہی اپنا خیال
ہاں کوئی ہوتا بھی ہوگا بھولنے والا خیال

ایک پتھر کی طرح سے ڈوبتا جاتا ہے دل
ہو رہا ہے اور گہرا اور بھی گہرا خیال

آب حیراں پر کسی کا عکس جیسے جم گیا
آنکھ میں بس ایک لمحے کے لئے ٹھہرا خیال

پھر تو کب اپنے رہے کب کار دنیا کے رہے
جب سے ہم پر چھا گیا اس جان دنیا کا خیال

نقش حیرت ہو گئی پھر اپنی حیرانی پہ چشم
زندگی آئینہ تھی اور آئینہ خانہ خیال

شام گہری ہو کے پھر اتری پھر اس دل کو لگا
اک خیال ایسا خیال ایسا خیال ایسا خیال