ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
اے وہ سب کچھ ہی سہی عشق مگر کچھ بھی نہیں
تم کو فریاد ستم کش کا خطر کچھ بھی نہیں
کچھ تو الفت کا اثر ہے کہ اثر کچھ بھی نہیں
عافیت ایک اور آزار ہزاروں اس میں
جس کو کچھ سود نہیں اس کو ضرر کچھ بھی نہیں
خلوت راز میں کیا کام ہے ہنگامے کا
ہے خبردار وہی جس کو خبر کچھ بھی نہیں
تو اور اک شان کہ عالم کی نظر میں کیا کچھ
میں اور اک جان کہ پھرتے ہی نظر کچھ بھی نہیں
رحم ہے اس کا ہی آشوب قیامت کی دلیل
جس سے بیزار ہے وہ اس کو خطر کچھ بھی نہیں
ہم کو اس حوصلے پہ کیوں کہ فلک دے ساماں
شکوۂ بار ہے اور منت سر کچھ بھی نہیں
راہیٔ ملک عدم ہیں نہیں فکر منزل
قصد رکھتے ہیں ادھر کا کہ جدھر کچھ بھی نہیں
زیست افسون تماشا ہے توہم کے لئے
ہوتی ہے جلوہ نما مثل شرر کچھ بھی نہیں
خود پرستی کے سبب شیخ و برہمن کو ہے خبط
سب ادھر ہی کی بناوٹ ہے ادھر کچھ بھی نہیں
عاقبت بیں کو ہے ہر بزم کی شادی ماتم
شمع روتی ہے کہ ہوتے ہی سحر کچھ بھی نہیں
روز فرقت کی درازی سے نہ دیکھے شب ہجر
حسرت شام میں تشویش سحر کچھ بھی نہیں
جانتے ہیں کہ نہ بھٹکے گا جہاں کیا کیا کچھ
دیکھتے ہیں کہ انہیں مد نظر کچھ بھی نہیں
اے قلقؔ پیتے ہی مسجد میں چلے آتے ہو
بے خبر کتنے ہو تم بھی کہ خبر کچھ بھی نہیں
غزل
ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
غلام مولیٰ قلق