ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
پوچھو کہ نکلے کیوں تھے وہ جوبن نکال کے
آنکھوں سے خواب کا ہو گزر کیا مجال ہے
پہرے بٹھا دیے ہیں کسی کے خیال کے
دل میں وہ بھیڑ ہے کہ ذرا بھی نہیں جگہ
آپ آئیے مگر کوئی ارماں نکال کے
صد شکر وصف قد پہ وہ اتنا تو پھول اٹھے
مضموں بلند ہیں مرے عالی خیال کے
لذت یہی کھٹک کی جو ہے راہ عشق میں
رکھ لوں گا دل میں پاؤں کے کانٹے نکال کے
دل رہ گیا الجھ کے نگاہوں کے تار میں
اچھا وہ جان ڈال گئے آنکھ ڈال کے
سنیے تو اک ذرا مرے اشعار دردناک
لایا ہوں میں کلیجے کے ٹکڑے نکال کے
آئینہ ہے جو ان کا مصاحب تو کیا ہوا
ہم بھی کبھی تھے دیکھنے والے جمال کے
لکھی ہے کھا کے خون جگر یہ غزل جلیلؔ
مصرع نہیں ہیں شعر کے ٹکڑے ہیں لال کے
غزل
ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
جلیلؔ مانک پوری