EN हिंदी
ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح | شیح شیری
hum to maujud the raaton mein ujalon ki tarah

غزل

ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح

سرور ارمان

;

ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح
لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح

جانے کیوں وقت بھی آنکھیں بھی قلم بھی لب بھی
آج خاموش ہیں گزرے ہوئے سالوں کی طرح

حاجتیں زیست کو گھیرے میں لیے رکھتی ہیں
خستہ دیوار سے چمٹے ہوئے جالوں کی طرح

رات بھیگی تو سسکتی ہوئی خاموشی سے
آسماں پھوٹ پڑا جسم کے چھالوں کی طرح

ساری راہیں سبھی سوچیں سبھی باتیں سبھی خواب
کیوں ہیں تاریخ کے بے ربط حوالوں کی طرح

زندگی خشک ہے ویران ہے افسردہ ہے
ایک مزدور کے بکھرے ہوئے بالوں کی طرح

زخم پہنے ہوئے معصوم بھکاری بچے
صفحۂ دہر پہ بکھرے ہیں سوالوں کی طرح