EN हिंदी
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے | شیح شیری
hum to bachpan mein bhi akele the

غزل

ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے

جاوید اختر

;

ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے

اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے

تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے

خود کشی کیا دکھوں کا حل بنتی
موت کے اپنے سو جھمیلے تھے

ذہن و دل آج بھوکے مرتے ہیں
ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے