EN हिंदी
ہم تو آسان سمجھتے تھے کہ رستہ کم تھا | شیح شیری
hum to aasan samajhte the ki rasta kam tha

غزل

ہم تو آسان سمجھتے تھے کہ رستہ کم تھا

خالد محمود ذکی

;

ہم تو آسان سمجھتے تھے کہ رستہ کم تھا
اس مسافت میں محبت کا علاقہ کم تھا

یوں تو دیوار کے پہلو میں کھڑے تھے ہم بھی
دھوپ ایسی تھی کہ دیوار کا سایہ کم تھا

کیسا لمحہ تھا کہ ہم ترک سفر کر بیٹھے
خواب کم تھے نہ ترے غم کا اثاثہ کم تھا

قامت حسن میں ثانی ہی نہیں تھا اس کا
شہر بے فیض ترا ذوق تماشا کم تھا

اک تعلق تھا جو ٹوٹا ہے کہ ہم ٹوٹے ہیں
پھر بھی لگتا ہے کہ ہم نے اسے چاہا کم تھا