ہم ترے شہر سے یوں جان وفا لوٹ آئے
جیسے دیوار سے ٹکرا کے صدا لوٹ آئے
نہ کوئی خواب نہ منظر نہ کوئی پس منظر
کتنا اچھا ہو جو بچپن کی فضا لوٹ آئے
آ گئیں پھر وہی موسم کی جبیں پر شکنیں
مسئلے پھر وہی اس بار بھی کیا لوٹ آئے
اپنے آنگن میں کوئی پیڑ لگا تلسی کا
شاید اس طرح سے پھر خواب ترا لوٹ آئے
جسم سے سوتے پسینے کے ابل اٹھے ہیں
اب تو بہتر ہے کہ مسموم ہوا لوٹ آئے
لوٹ ہم آئے مبارکؔ یوں در جاناں سے
جیسے آکاش سے مفلس کی دعا لوٹ آئے

غزل
ہم ترے شہر سے یوں جان وفا لوٹ آئے
مبارک انصاری