ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں
ریگ زاروں میں پھریں خاک اڑانے لگ جائیں
ڈھونڈتا رہتا ہوں ہاتھوں کی لکیروں میں تجھے
چاہتا ہوں مرے ہاتھوں میں خزانے لگ جائیں
یہ الگ بات کہ تجدید تعلق نہ ہوا
پر اسے بھولنا چاہوں تو زمانے لگ جائیں
شہر بے شکل میں اے کاش کبھی ایسا ہو
حسب ترتیب کئی آئینہ خانے لگ جائیں
غزل
ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں
احمد اشفاق