EN हिंदी
ہم تھے کسی کا دھیان تھا وہ بھی نہیں رہا | شیح شیری
hum the kisi ka dhyan tha wo bhi nahin raha

غزل

ہم تھے کسی کا دھیان تھا وہ بھی نہیں رہا

مصحف اقبال توصیفی

;

ہم تھے کسی کا دھیان تھا وہ بھی نہیں رہا
اک ربط جسم و جان تھا وہ بھی نہیں رہا

جھگڑا تھا میرا جس سے وہ دنیا کدھر گئی
اک شخص درمیان تھا وہ بھی نہیں رہا

مثل چراغ تیرگی جسم و جاں میں دل
اک شہر بے نشان تھا وہ بھی نہیں رہا

اینٹیں بچھی تھیں جس میں وہ اک تنگ سی گلی
اس میں مرا مکان تھا وہ بھی نہیں رہا

دنیا مری نہیں نہ سہی تم تو ساتھ ہو
کیا کیا ہمیں گمان تھا وہ بھی نہیں رہا

نقطہ بنی نگاہ سے اوجھل ہوئی زمیں
سر پر اک آسمان تھا وہ بھی نہیں رہا

مصحفؔ تمھارا نام یہیں تھا اور اس پہ ہاں
اک سرخ سا نشان تھا وہ بھی نہیں رہا