EN हिंदी
ہم تصور میں ان کے ابھرنے لگے | شیح شیری
hum tasawwur mein un ke ubharne lage

غزل

ہم تصور میں ان کے ابھرنے لگے

ایوب جوہر

;

ہم تصور میں ان کے ابھرنے لگے
چشم آہو میں منظر سنورنے لگے

قاعدہ کلیہ ہم نہیں جانتے
سجدہ کرنا تھا بس سجدہ کرنے لگے

اے گناہو بتاؤ کہاں ٹھہرو گے
آسماں سے صحیفے اترنے لگے

جب بھی روشن ہوا ہے الاؤ کوئی
ہم تری راہ گزر سے گزرنے لگے

پارسائی کی ہے دھوم اب کے مچی
دیکھو جوہرؔ بھی اب تو سدھرنے لگے