ہم تہ دریا طلسمی بستیاں گنتے رہے
اور ساحل پر مچھیرے مچھلیاں گنتے رہے
ناتواں شانوں پہ ایسی خامشی کا بوجھ تھا
اپنے اس کے درمیاں بھی سیڑھیاں گنتے رہے
بزم جاں سے چپکے چپکے خواب سب رخصت ہوئے
ہم بھلا کرتے بھی کیا بس گنتیاں گنتے رہے
بانس کے جنگل سے ہو کے جب کبھی گزری ہوا
اک صدائے گم شدہ کی دھجیاں گنتے رہے
کس ہوا نے ڈس لیا ہے رنگ و روغن اڑ گئے
صحن دل سے اس مکاں کی کھڑکیاں گنتے رہے
پہلوئے شب کل اسی چہرے سے روشن تھا مگر
جانے کتنے موسموں کی تلخیاں گنتے رہے
غزل
ہم تہ دریا طلسمی بستیاں گنتے رہے
اشعر نجمی