EN हिंदी
ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو | شیح شیری
hum shahr ki diwaron mein khinch aae hain yaro

غزل

ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو

محشر بدایونی

;

ہم شہر کی دیواروں میں کھنچ آئے ہیں یارو
محسوس کیا تھا کہ ادھر سائے ہیں یارو

رہنے بھی دو کیا پوچھ کے زخموں کا کرو گے
یہ زخم اگر تم نے نہیں کھائے ہیں یارو

چھیڑو کوئی بات ایسی کہ احساس کو بدلے
ہم آج ذرا گھر سے نکل آئے ہیں یارو

کیا سوچتے ہو تازہ لہو دیکھ کے سر میں
اک دوست نما سنگ سے ٹکرائے ہیں یارو

ایسے بھی نہ چپ ہو کہ پشیمان ہو جیسے
کچھ تم نے یہ صدمے نہیں پہنچائے ہیں یارو

انداز تمہیں ہوگا کہ بات ایسی ہی کچھ ہے
ورنہ کبھی ہم ایسے بھی گھبرائے ہیں یارو

وہ قصے جو سن لیتے تھے ہم از رہ اخلاق
اب اپنے یہاں وقت نے دہرائے ہیں یارو

اب تم کو سناتے ہیں کہ احساس کی تہہ سے
ایک نغمہ بہت ڈوب کے ہم لائے ہیں یارو

جاتے ہیں کہ گزرا ہے یہ دن جن کی خزاں میں
آنکھوں میں بہار ان کے لئے لائے ہیں یارو