ہم سے یوں بے رخی سے ملتے ہیں
جس طرح ہر کسی سے ملتے ہیں
لب ترے پنکھڑی سے ملتے ہیں
بول اک راگنی سے ملتے ہیں
یہ شہر پتھروں کا جنگل ہے
آشنا اجنبی سے ملتے ہیں
جن کا مقصد فریب ہوتا ہے
وہ بڑی سادگی سے ملتے ہیں
موت آئے گی اس سے مل لیں گے
اب چلو زندگی سے ملتے ہیں
جب سے بیٹھے ہیں دل لگا کے چمنؔ
آج کل کم کسی سے ملتے ہیں
غزل
ہم سے یوں بے رخی سے ملتے ہیں
چمن لال چمن