EN हिंदी
ہم سے یوں بے رخی سے ملتے ہیں | شیح شیری
humse yun be-ruKHi se milte hain

غزل

ہم سے یوں بے رخی سے ملتے ہیں

چمن لال چمن

;

ہم سے یوں بے رخی سے ملتے ہیں
جس طرح ہر کسی سے ملتے ہیں

لب ترے پنکھڑی سے ملتے ہیں
بول اک راگنی سے ملتے ہیں

یہ شہر پتھروں کا جنگل ہے
آشنا اجنبی سے ملتے ہیں

جن کا مقصد فریب ہوتا ہے
وہ بڑی سادگی سے ملتے ہیں

موت آئے گی اس سے مل لیں گے
اب چلو زندگی سے ملتے ہیں

جب سے بیٹھے ہیں دل لگا کے چمنؔ
آج کل کم کسی سے ملتے ہیں