ہم سے یہ کہہ کے وہ حال شب غم پوچھتے ہیں
کیا بتاؤگے نہ تم اب بھی کہ ہم پوچھتے ہیں
یوں کوئی دے کے زباں اپنی مکر جاتا ہے
آپ سے کہتے ہیں یہ آپ سے ہم پوچھتے ہیں
بھولے بھٹکے جو ادھر کوئی نکل جاتا ہے
خیر بت خانے کی سب اہل حرم پوچھتے ہیں
میں نے ایسا کوئی ہمدرد نہ دیکھا نہ سنا
صبح کو مجھ سے وہ حال شب غم پوچھتے ہیں
جو نہ جھیلی تھی کبھی اس نے وہ آفت جھیلی
آپ کیا نوحؔ سے افسانۂ غم پوچھتے ہیں
غزل
ہم سے یہ کہہ کے وہ حال شب غم پوچھتے ہیں
نوح ناروی