ہم سے وہ بے رخی سے ملتا ہے
جی کو پیغام جی سے ملتا ہے
ہم کو باور نہ تھا عداوت کا
سلسلہ عاشقی سے ملتا ہے
رشتۂ ارتقائے انسانی
ذہن کی تشنگی سے ملتا ہے
دست تخیل کو کوئی دامن
بخت کی یاوری سے ملتا ہے
دوستی اور دشمنی کا مزا
دوست کی دشمنی سے ملتا ہے
ذوق بڑھتا ہے آشنائی کا
جب وہ بیگانگی سے ملتا ہے
رخ کو تزئین کا نیا پہلو
آپ کی بے رخی سے ملتا ہے
ہے وہ ملتا ہی کس لیے حامدؔ
ہم سے جو بے دلی سے ملتا ہے
غزل
ہم سے وہ بے رخی سے ملتا ہے
سید حامد