EN हिंदी
ہم سے وہ بے رخی سے ملتا ہے | شیح شیری
humse wo be-ruKHi se milta hai

غزل

ہم سے وہ بے رخی سے ملتا ہے

سید حامد

;

ہم سے وہ بے رخی سے ملتا ہے
جی کو پیغام جی سے ملتا ہے

ہم کو باور نہ تھا عداوت کا
سلسلہ عاشقی سے ملتا ہے

رشتۂ ارتقائے انسانی
ذہن کی تشنگی سے ملتا ہے

دست تخیل کو کوئی دامن
بخت کی یاوری سے ملتا ہے

دوستی اور دشمنی کا مزا
دوست کی دشمنی سے ملتا ہے

ذوق بڑھتا ہے آشنائی کا
جب وہ بیگانگی سے ملتا ہے

رخ کو تزئین کا نیا پہلو
آپ کی بے رخی سے ملتا ہے

ہے وہ ملتا ہی کس لیے حامدؔ
ہم سے جو بے دلی سے ملتا ہے