ہم سے وارفتہ الفت ہیں بہت کم پیدا
ہاتھ سے کھو نہ ہمیں ہوں گے نہ پھر ہم پیدا
التیام اس کا جو ہے لطف بتاں پر موقوف
زخم دل کا مرے ہوتا نہیں مرہم پیدا
بد نہ کہہ بد کو کہ صناع بد و نیک ہے ایک
خار و گل ہوتے ہیں اک شاخ سے باہم پیدا
نہیں ابرو ترے رخسار کے سجدے کے لیے
عکس انگشت شہادت نے کیا خم پیدا
میں بھی ہوں باعث ایجاد ہوسؔ اک شے کا
میری خاطر مرے خالق نے کیا غم پیدا
غزل
ہم سے وارفتہ الفت ہیں بہت کم پیدا
مرزا محمد تقی ہوسؔ