EN हिंदी
ہم سے مل کر کوئی گفتگو کیجیے | شیح شیری
humse mil kar koi guftugu kijiye

غزل

ہم سے مل کر کوئی گفتگو کیجیے

فرحت عباس

;

ہم سے مل کر کوئی گفتگو کیجیے
پوری دل کی یہی جستجو کیجیے

آپ کی دشمنی کا میں ہوں معترف
وار کیجے مگر دو بدو کیجیے

دامن دل کی لاکھوں ہوئیں دھجیاں
کیجیے کیجیے اب رفو کیجیے

پھول موسم میں کانٹوں کے بیوپار سے
جسم و جان و جگر مت لہو کیجیے

زندگی ہو مگر درد ہجراں نہ ہو
ایسے جینے کی کیا آرزو کیجیے

آپ کتنے حسیں ہیں نہیں جانتے
آئنے کو ذرا روبرو کیجیے

فرحتؔ جاں کی کیوں جستجو کیجیے
بجھتے جیون کی کیا اب نمو کیجیے