ہم سے مت پوچھو کہ اک وہ چیز کیا دونوں میں ہے
جو ملاتا ہے ہمیں وہ فاصلہ دونوں میں ہے
اس کے ملنے کی خوشی ہو یا بچھڑ جانے کا غم
ہوش رہتا ہی نہیں ایسا نشہ دونوں میں ہے
اس کی آنکھیں کان ہیں اور میری آنکھیں بھی ہیں ہونٹ
اپنی اپنی کہنے سننے کی ادا دونوں میں ہے
گیت کے سانچے میں ڈھالوں یا غزل کے روپ میں
پر ترے ہی نام کا اک قافیہ دونوں میں ہے
یوں کسی آواز کا چہرا نہیں ہوتا مگر
جس میں آوازیں دکھیں وہ آئنہ دونوں میں ہے
اس کو آستکتا کہو چاہے ناسکتکتا کنورؔ
دونوں خط اس کے ہی ہیں اس کا پتہ دونوں میں ہے
غزل
ہم سے مت پوچھو کہ اک وہ چیز کیا دونوں میں ہے
کنور بے چین