ہم سے کنارہ کیوں ہے ترے مبتلا ہیں ہم
اے بحر حسن آ ادھر آ آشنا ہیں ہم
ناقوس میکدے میں بجایا تو یہ کہا
بندے گناہ گار ترے اے خدا ہیں ہم
پروا نہیں ہے تم کو تو ہے تم پہ کیوں مریں
دوبھر نہ زندگی ہے نہ گھر سے سوا ہیں ہم
ہم سے کسی کے غمزۂ بے جا اٹھیں گے کیا
نازک مزاج لوگ ہیں ہم میرزا ہیں ہم
اب کیا بنے گی ان سے طبیعت بگڑ گئی
اب خوش رہیں وہ جان سے اپنی خفا ہیں ہم
غزل
ہم سے کنارہ کیوں ہے ترے مبتلا ہیں ہم
حاتم علی مہر