ہم سے کر تو کہ یا نہ کر اخلاص
ہم کو ہے تجھ سے یار پر اخلاص
اپنے مخلص کی بات کا ہرگز
مت برا مان ہے اگر اخلاص
میرے اور اس کے کیونکہ صحبت ہو
پنبہ سے کب رکھے شرر اخلاص
خون ہو کر بھی تیری طرف بہے
تجھ سے رکھے تھے دل جگر اخلاص
ہے غنیمت رہے جو کوئی دن
ہم میں اور اس میں یک دگر اخلاص
وہ نہیں وقت اب کہ ہر یک میں
دیکھتے تھے جدھر تدھر اخلاص
اس زمانہ میں اے حسنؔ مت پوچھ
ہے محبت کہاں کدھر اخلاص
غزل
ہم سے کر تو کہ یا نہ کر اخلاص
میر حسن