ہم سے گمراہ زمانے نے کہاں دیکھے ہیں
ہم نے مٹتے ہوئے قدموں کے نشاں دیکھے ہیں
آپ نے دیکھ کے ہر اک کو نظر پھیری ہے
آپ نے صاحب احساس کہاں دیکھے ہیں
زندگی سیدھی سی اک راہ نہیں ہے اے دوست
اس میں جو موڑ ہیں وہ تو نے کہاں دیکھے ہیں
دل جہاں لرزے امیدوں کا تصور کر کے
میں نے امید کے آثار وہاں دیکھے ہیں
اٹھ گئی آنکھ اگر میری تو جم جائے گی
آپ نے دیدۂ ہر سو نگراں دیکھے ہیں
غزل
ہم سے گمراہ زمانے نے کہاں دیکھے ہیں
محشر عنایتی