ہم سے دو چار بزم میں دھیان اور کی طرف
آنکھ اس طرف لگائی ہے کان اور کی طرف
ابرو سے ہم شہید مژہ سے رقیب ہوں
تلوار ادھر لگائیے بان اور کی طرف
صید زبوں وہ ہوں جو رواں تیر ادھر ہوا
اس کی قضا نے بولی کمان اور کی طرف
ہم بیکسوں کی قبر سوا ہرگز اے فلک
نم گیر کو نہ ابر کے تان اور کی طرف
یا رب کرے جو حسن کی خیرات وہ صنم
میرے سوا کرے نہیں دان اور کی طرف
اترے نہ کس طرح مری آنکھوں میں خون شادؔ
دیتا مجھے دکھا کے ہے پان اور کی طرف
غزل
ہم سے دو چار بزم میں دھیان اور کی طرف
شاد لکھنوی