EN हिंदी
ہم سفر یاد ہیں اس کے جو سفر ختم ہوا | شیح شیری
ham-safar yaad hain uske jo safar KHatm hua

غزل

ہم سفر یاد ہیں اس کے جو سفر ختم ہوا

نقاش عابدی

;

ہم سفر یاد ہیں اس کے جو سفر ختم ہوا
جانے کب کون سی سازش ہو یہ ڈر ختم ہوا

بے سبب سب کو ہی سبقت کے جنوں نے مارا
ایسے بکھرے ہیں کہ رشتوں کا اثر ختم ہوا

اعتبار اٹھتے ہی یہ کیسا تغیر آیا
دل کا ویران مکاں رہ گیا گھر ختم ہوا

شاخ ہی شاخ کی دشمن تھی ثمر کیا دیتا
پھولنے پھلنے سے پہلے ہی شجر ختم ہوا

جانتا تھا کہ مرے گیت بھی کھو جائیں گے
تیرا مجھ سے جو تعلق تھا اگر ختم ہوا

ہم تو مائل تھے بہ ہر حال لہو دینے پر
اک تری طرز تغافل سے جگر ختم ہوا

اس کو بس مجھ کو ڈبونے ہی کی ضد تھی شاید
میں جو ڈوبا تو مرے ساتھ بھنور ختم ہوا