ہم سفر گم راستے ناپید گھبراتا ہوں میں
اک بیاباں در بیاباں ہے جدھر جاتا ہوں میں
بزم فکر و ہوش ہو یا محفل عیش و نشاط
ہر جگہ سے چند نشتر چند غم لاتا ہوں میں
آ گئی اے نامرادی وہ بھی منزل آ گئی
مجھ کو کیا سمجھائیں گے وہ ان کو سمجھاتا ہوں میں
ان کے لب پر ہے جو ہلکے سے تبسم کی جھلک
اس میں اپنے آنسوؤں کا سوز بھی پاتا ہوں میں
شام تنہائی بجھا دے جھلملاتی شمع بھی
ان اندھیروں میں ہی اکثر روشنی پاتا ہوں میں
ہمت افزا ہے ہر اک افتاد راہ شوق کی
ٹھوکریں کھاتا ہوں گرتا ہوں سنبھل جاتا ہوں میں
ان کے دامن تک خود اپنا ہاتھ بھی بڑھتا نہیں
اپنا دامن ہو تو ہر کانٹے سے الجھاتا ہوں میں
شوق منزل ہم سفر ہے جذبۂ دل راہبر
مجھ پہ خود بھی کھل نہیں پاتا کدھر جاتا ہوں میں
غزل
ہم سفر گم راستے ناپید گھبراتا ہوں میں
علی جواد زیدی