EN हिंदी
ہم سایے سے طلب کروں پانی کے بعد کیا | شیح شیری
ham-sae se talab karun pani ke baad kya

غزل

ہم سایے سے طلب کروں پانی کے بعد کیا

کبیر اطہر

;

ہم سایے سے طلب کروں پانی کے بعد کیا
رہتا ہے ہوش نقل مکانی کے بعد کیا

یہ کیسی توڑ پھوڑ ہے شہر وجود میں
آتنک مچ گیا ہے جوانی کے بعد کیا

پانی کے پاؤں کاٹنے پہ تل گئے ہو تم
دریا میں بچ رہے گا روانی کے بعد کیا

باتوں کے ساتھ منہ سے ٹپکنے لگا ہے خوں
مر جاوں گا میں ہجر بیانی کے بعد کیا

ان کو بتاؤں گا جنہیں حوروں سے عشق ہے
دراصل ہوگا عالم فانی کے بعد کیا

میں دیکھتا ہوں آنکھ میں خوابوں کی میتیں
تم دیکھتے ہو اشک فشانی کے بعد کیا

شعروں پہ ظلم کرتے ہیں جو جانتے نہیں
کرنا ہے کام مصرع ثانی کے بعد کیا

کیوں لفظ لفظ کھودتے ہو شعر کو کبیرؔ
شاعر نکالنا ہے معانی کے بعد کیا