EN हिंदी
ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی | شیح شیری
hum sada hi aise the ki yun hi pazirai

غزل

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی

فیض احمد فیض

;

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی

آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی

امید تلطف میں رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل میں اور مری تنہائی

یک جان نہ ہو سکیے انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں شمشیر شناسائی

اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں اے چشم تماشائی