ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی
امید تلطف میں رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل میں اور مری تنہائی
یک جان نہ ہو سکیے انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں شمشیر شناسائی
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں اے چشم تماشائی
غزل
ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی
فیض احمد فیض