ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے
اس لیے خوش بیان کچھ کم ہے
مٹ گیا ہوں پر اس کی نظروں میں
اب بھی یہ امتحان کچھ کم ہے
شہر میں یوں زمیں تو کافی ہے
نیلگوں آسمان کچھ کم ہے
غم کے سامان کچھ زیادہ ہیں
اس مطابق مکان کچھ کم ہے
سر چھپاؤں تو پاؤں جلتے ہیں
مجھ پہ یہ سائبان کچھ کم ہے
زندگی اور دے عذاب مجھے
مجھ پہ عائد لگان کچھ کم ہے
فصل بارود ہے پہاڑوں پر
اس برس زعفران کچھ کم ہے
غزل
ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے
نفس انبالوی