EN हिंदी
ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے | شیح شیری
hum pe wo mehrban kuchh kam hai

غزل

ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے

نفس انبالوی

;

ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے
اس لیے خوش بیان کچھ کم ہے

مٹ گیا ہوں پر اس کی نظروں میں
اب بھی یہ امتحان کچھ کم ہے

شہر میں یوں زمیں تو کافی ہے
نیلگوں آسمان کچھ کم ہے

غم کے سامان کچھ زیادہ ہیں
اس مطابق مکان کچھ کم ہے

سر چھپاؤں تو پاؤں جلتے ہیں
مجھ پہ یہ سائبان کچھ کم ہے

زندگی اور دے عذاب مجھے
مجھ پہ عائد لگان کچھ کم ہے

فصل بارود ہے پہاڑوں پر
اس برس زعفران کچھ کم ہے