EN हिंदी
ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا | شیح شیری
hum pe rakhe gae ilzam na jaane kya kya

غزل

ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا

شارب لکھنوی

;

ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا
بن گئے ایک محبت کے فسانے کیا کیا

منزل دار و رسن قید ستم دشت بلا
پائے ہیں اہل محبت نے ٹھکانے کیا کیا

کوئی انداز ندامت کوئی نالہ کوئی اشک
ڈھونڈے ہیں چشم کرم تو نے بہانے کیا کیا

کبھی آندھی کبھی طوفاں کبھی شعلے کبھی برق
میرے گلشن پہ بھی گزرے ہیں زمانے کیا کیا

دولت صبر و سکوں گوہر اشک رنگیں
ہم نے غربت میں لٹائے خزانے کیا کیا

نظر اہل محبت ہی سمجھ سکتی ہے
لب خاموش پہ ہوتے ہیں فسانے کیا کیا

اب مرے سامنے جب کوئی گلے ملتا ہے
کھنچ کے آ جاتے ہیں آنکھوں میں زمانے کیا کیا

کبھی کلیوں کا تبسم کبھی تاروں کی چمک
دل تڑپنے کے بھی ہوتے ہیں بہانے کیا کیا

کبھی ہلکا سا تبسم کبھی جھینپی سی نظر
ہم سے پوچھو کہ لگے دل پہ نشانے کیا کیا

ہم خطا کار محبت ہیں یہ ہم سے پوچھو
حسن معصوم کو آتے ہیں بہانے کیا کیا

ان گنت روز خیالوں کے محل بنتے ہیں
سوچتا ہے دل بیتاب نہ جانے کیا کیا

کوئی شاربؔ کوئی ملاؔ کوئی غالبؔ کوئی میرؔ
منزل عشق سے گزرے ہیں دوانے کیا کیا