ہم پہ اگرچہ بھاری گزری پھر بھی تھی کیا پیاری رات
آپ بھی تڑپی ساتھ ہمارے آپ بھی جاگی ساری رات
جیسے جیسے رات ڈھلی ہے درد کی لذت اور بڑھی
یادوں کی خوشبو میں بسا کر ہم نے خوب سنواری رات
تیرے خیالوں کے پردے سے جب غم دنیا جھانک اٹھا
رک گئی جیسے وقت کی گردش ہو گئی دل پر بھاری رات
آپ نہ مانیں آپ نہ سمجھیں آپ پہ دل کا زور نہیں
ہم نے اپنا درد کہا ہے آپ سے ساری ساری رات
شام سے کلیاں درد کی مہکیں جلتے رہے اشکوں کے چراغ
جیسے صبا گلزار سے گزرے ہم نے ایسے گزاری رات

غزل
ہم پہ اگرچہ بھاری گزری پھر بھی تھی کیا پیاری رات
خورشید الاسلام