ہم نے تو یہی معرکہ مارا ہے سفر میں
منزل کی طرح بیٹھ گئے راہ گزر میں
وہ شمع شب انجام کی صورت تو نہیں تھا
اک پل میں شب نصف اتر آئی ہے گھر میں
اے نالۂ دل دوز تڑپ اٹھی خموشی
ہے مرگ تماشا کسی آباد نگر میں
ہم خاک کے تودے پہ کھڑے پوچھ رہے ہیں
کیا لطف ملا تم کو سمندر کے سفر میں
ہم سایۂ دیوار شکستہ میں پڑے تھے
ڈھونڈو گے تو پاؤ گے ہمیں سایۂ در میں
یہ مرحلۂ قطع تعلق تو کٹھن تھا
اک درد کا دریا بھی ہے اب دیدۂ تر میں
اک عمر کے رشتوں کو فنا پل میں ملی ہے
ہم ڈھونڈنے کیا نکلے ہیں صدیوں کے سفر میں
تاریک و خنک خاک کا پیوند ہوئے ہیں
ہم تول کے لائے تھے جنہیں لعل و گہر میں
یوں تیری طرح دور کی منزل کے مسافر
سب کچھ تو نہیں چھوڑ کے جاتے کبھی گھر میں
غزل
ہم نے تو یہی معرکہ مارا ہے سفر میں
شفقت تنویر مرزا