EN हिंदी
ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا ایسا دن بھی آئے گا | شیح شیری
humne to socha bhi nahin tha aisa din bhi aaega

غزل

ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا ایسا دن بھی آئے گا

جعفر عباس

;

ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا ایسا دن بھی آئے گا
اپنوں کا یوں رخ بدلے گا سب سے جی بھر جائے گا

دل میں جو ہے سب کہہ ڈالو وقت بہت کم باقی ہے
کون یہاں ہے دوست تمہارا جو دشمن ہو جائے گا

کیسے کیسے پیارے ساتھی کیسی کیسی باتیں تھیں
کس کو کیا معلوم تھا یارو کون کہاں چھٹ جائے گا

پیار کے بدلے نفرت پائی نفرت بھی اتنی گہری
ایسا کیوں ہے کیوں ہے ایسا کوئی سمجھ نہ پائے گا

مت پوچھو ہم کو اپنوں نے کیسے کیسے زخم دئے
گر یہ قصہ چھیڑ دیا تو سب کا جی بھر آئے گا

آنکھوں میں اب اشک نہیں ہیں سینے میں اب آہ نہیں
اس کی بات کرو مت مجھ سے درد بہت بڑھ جائے گا

اپنا بھی اک یار تھا ایسا جس سے کچھ کہہ لیتے تھے
اب جو دل کا بوجھ بڑھے گا کس کے در پر جائے گا

پیار محبت لاگ لگاؤ کے بارے میں مت سوچو
رہا سہا جو بھرم بچا ہے یوں وہ بھی اٹھ جائے گا

گھر سے بے گھر ہو کر ہم تو مارے مارے پھرتے ہیں
یہ بنجارا دل دیکھو اب ہم کو کدھر لے جائے گا

ہم نے تو اپنی کہہ ڈالی تم بھی تو کچھ اپنی کہو
دل کی بات کرو کچھ یارو دل ہلکا ہو جائے گا