ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں
عمر کیوں کھوتے ہو اے دیدۂ تر رونے میں
رات کب آئے تم اور کب گئے معلوم نہیں
جان اتنی نہ رہی ہم کو خبر رونے میں
جب تلک اشک تھمیں بیٹھ اگر آیا ہے
تیری صورت نہیں آتی ہے نظر رونے میں
تجھ کو اے دیدۂ تر شغل ہے رونا لیکن
ڈوبا جاتا ہے یہاں دل کا نگر رونے میں
عالم عشق میں مجنوں بھی بڑا گاڑھا تھا
یار مجنوں سے بھی ہم گاڑے ہیں پر رونے میں
غزل
ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں
عشق عظیم آبادی