EN हिंदी
ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں | شیح شیری
humne to KHak bhi dekha na asar rone mein

غزل

ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں

عشق عظیم آبادی

;

ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں
عمر کیوں کھوتے ہو اے دیدۂ تر رونے میں

رات کب آئے تم اور کب گئے معلوم نہیں
جان اتنی نہ رہی ہم کو خبر رونے میں

جب تلک اشک تھمیں بیٹھ اگر آیا ہے
تیری صورت نہیں آتی ہے نظر رونے میں

تجھ کو اے دیدۂ تر شغل ہے رونا لیکن
ڈوبا جاتا ہے یہاں دل کا نگر رونے میں

عالم عشق میں مجنوں بھی بڑا گاڑھا تھا
یار مجنوں سے بھی ہم گاڑے ہیں پر رونے میں