ہم نے تو جستجو کو بھی ہے مدعا کیا
یعنی کہ دل کے درد کو حسن نوا کیا
ہر جنبش نظر میں نہاں تیرے انقلاب
مجھ کو گھٹا دیا کبھی مجھ کو سوا کیا
اے کاش تیرا حسن ہی اصل حیات ہو
تیری نظر سے ہم نے حقیقت کو وا کیا
اس دشنۂ نظر کا بھلا اور کیا جواب
ہمدم میں دل کے چاک ہی بیٹھا سیا کیا
اس رہ گزر سے اب وہ نہ گزرے گا اے ندیم
کچھ میں نے کہہ دیا تھا مگر اس نے کیا کیا
میں اس سے سر خوشی میں وہی بات کہہ گیا
کتنا برا کیا ارے کتنا برا کیا
کیا کیا جتن کئے نہ محبت میں اے ندیم
کیا پوچھتے ہو کیا نہ کیا اور کیا کیا
اب باز گشت کی کوئی صورت نکل سکے
یوں تو ترے بغیر بھی یہ دل جیا کیا
اک چومتی ہوئی سی نظر ڈال کر
مسعودؔ تم نے ایک صنم کو خدا کیا

غزل
ہم نے تو جستجو کو بھی ہے مدعا کیا
مسعود حسین خاں