EN हिंदी
ہم نے تھاما یقیں کو گماں چھوڑ کر | شیح شیری
humne thama yaqin ko guman chhoD kar

غزل

ہم نے تھاما یقیں کو گماں چھوڑ کر

عدیل زیدی

;

ہم نے تھاما یقیں کو گماں چھوڑ کر
اک طرف ہو گئے درمیاں چھوڑ کر

دل نہ مانا جئیں کہکشاں چھوڑ کر
جا کے بستے کہاں خانداں چھوڑ کر

اپنا گھر چھوڑ کر بستیاں چھوڑ کر
بے اماں ہو گئے ہم اماں چھوڑ کر

سو گئے بیچ میں داستاں چھوڑ کر
ہم الگ ہو گئے کارواں چھوڑ کر

کیسے ناداں تھے ہم سب کہاں آ گئے
اپنے آباؤ جد کے مکاں چھوڑ کر

ساتھ چلتے رہے یہ نہ سوچا کبھی
کون جائے گا کس کو کہاں چھوڑ کر

آج بھی منتظر ہم وہیں ہیں ترے
کل گیا تھا ہمیں تو جہاں چھوڑ کر

راہ اپنی نکالی تو منزل ملی
ہم چلے جادۂ رہبراں چھوڑ کر

ہے یہ معلوم گر جسم و جاں سے گئے
سب چلے جائیں گے مہرباں چھوڑ کر

گر تمہاری تمنا ہے دائم رہو
جاؤ ذہنوں میں روشن نشاں چھوڑ کر

تم تو تنہا ہوئے جیتے جی ہی عدیلؔ
لوگ جاتے ہیں تنہا جہاں چھوڑ کر