EN हिंदी
ہم نے سنا تھا صحن‌ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں | شیح شیری
humne suna tha sahn-e-chaman mein kaif ke baadal chhae hain

غزل

ہم نے سنا تھا صحن‌ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں

حبیب جالب

;

ہم نے سنا تھا صحن‌ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
ہم بھی گئے تھے جی بہلانے اشک بہا کر آئے ہیں

پھول کھلے تو دل مرجھائے شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر کتنے غم اپنائے ہیں

ایک سلگتی یاد چمکتا درد فروزاں تنہائی
پوچھ نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں

سوئے ہوئے جو درد تھے دل میں آنسو بن کر بہہ نکلے
رات ستاروں کی چھاؤں میں یاد وہ کیا کیا آئے ہیں

آئے بھی سورج ڈوب گیا بے نور افق کے ساگر میں
آج بھی پھول چمن میں تجھ کو بن دیکھے مرجھائے ہیں

ایک قیامت کا سناٹا ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دور نہ ہنستا چاند نہ روشن سائے ہیں

پیار کی بولی بول نہ جالبؔ اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سکھ کی کلیاں کھو کر دکھ کے کانٹے پائے ہیں