ہم نے قصہ بہت کہا دل کا
نہ سنا تم نے ماجرا دل کا
اپنے مطلب کی سب ہی کہتے ہیں
ہے نہیں کوئی آشنا دل کا
عشق میں ایسی کھینچی رسوائی
ہو گیا شور جا بجا دل کا
اس قدر بے حواس رہتا ہے
جیسے کچھ کوئی لے گیا دل کا
ایک بوسے پہ بیچتے تھے ہم
تو نے سودا نہ کچھ کیا دل کا
تیرے ملنے سے فائدہ کیا ہے
نہ ہو حاصل جو مدعا دل کا
کیوں دیا آصفؔ اس ستم گر کو
آپ تو مدعی ہوا دل کا
غزل
ہم نے قصہ بہت کہا دل کا
آصف الدولہ