ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
ان کی صورت دیکھ لی سو بار لیکن دور سے
وہ دکھاتے ہیں ہمیں رخسار لیکن دور سے
اس کا مطلب ہے کہ کر لو پیار لیکن دور سے
اس نے جانچا میرا درد دل مگر آیا نہ پاس
اس نے دیکھا میرا حال زار لیکن دور سے
روزن دیوار سے حسرت بھری آنکھیں لڑیں
ہو گئیں ان سے نگاہیں چار لیکن دور سے
اس نے آنے کا کیا ہے قول لیکن تا بہ در
اس نے ملنے کا کیا اقرار لیکن دور سے
پاس مضطرؔ کس طرح جاتے ہجوم یاس میں
ہو گیا ان کا ہمیں دیدار لیکن دور سے
غزل
ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
مضطر خیرآبادی