ہم نے میخانے کی تقدیس بچا لی ہوتی
کوئی بوتل تو یہاں خون سے خالی ہوتی
اس کی بنیاد اگر زہد نے ڈالی ہوتی
دین کی طرح یہ دنیا بھی خیالی ہوتی
انجمن داغ جگر کی متحمل نہ ہوئی
کاش ہم نے بھی کوئی شمع جلا لی ہوتی
سچ تو یہ ہے کہا گر جرم نہ ثابت ہوتا
ہم نے خود مانگ کے جینے کی سزا لی ہوتی
آج اس موڑ پہ ہم ہیں کہ اگر بس چلتا
لوٹ جانے کی کوئی راہ نکالی ہوتی
تم نے قانون میں ترمیم کی زحمت کیوں کی
ہم نے خود قید کی میعاد بڑھا لی ہوتی
وسعت شوق نے رکھا نہ کہیں کا ہم کو
ورنہ ہر دل میں جگہ اپنی بنا لی ہوتی
غزل
ہم نے میخانے کی تقدیس بچا لی ہوتی
اعزاز افصل