ہم نے کس دن ترے کوچے میں گزارا نہ کیا
تو نے اے شوخ مگر کام ہمارا نہ کیا
ایک ہی بار ہوئیں وجہ گرفتارئ دل
التفات ان کی نگاہوں نے دوبارا نہ کیا
محفل یار کی رہ جائے گی آدھی رونق
ناز کو اس نے اگر انجمن آرا نہ کیا
طعن احباب سنے سرزنش خلق سہی
ہم نے کیا کیا تری خاطر سے گوارا نہ کیا
جب دیا تم نے رقیبوں کو دیا جام شراب
بھول کر بھی مری جانب کو اشارا نہ کیا
روبرو چشم تصور کے وہ ہر وقت رہے
نہ سہی آنکھ نے گر ان کا نظارا نہ کیا
گر یہی ہے ستم یار تو ہم نے حسرتؔ
نہ کیا کچھ بھی جو دنیا سے کنارا نہ کیا
غزل
ہم نے کس دن ترے کوچے میں گزارا نہ کیا
حسرتؔ موہانی