ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے
کتنی گزری ہوئی باتوں کا خیال آیا ہے
قافلہ درد کا ٹھہرے گا کہاں ہم سفرو
کوئی منزل ہے نہ بستی نہ کہیں سایا ہے
ایک سہما ہوا سنسان گلی کا نکڑ
شہر کی بھیڑ میں اکثر مجھے یاد آیا ہے
یوں لیے پھرتا ہوں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی صلیب
اب یہی جیسے مری زیست کا سرمایہ ہے
شہر میں ایک بھی آوارہ نہیں اب کے برس
موسم لالہ و گل کیسی خبر لایا ہے
ان کی ٹوٹی ہوئی دیوار کا سایہ آزرؔ
دھوپ میں کیوں مرے ہم راہ چلا آیا ہے
غزل
ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے
کفیل آزر امروہوی