EN हिंदी
ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے | شیح شیری
humne jab koi bhi darwaza khula paya hai

غزل

ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے

کفیل آزر امروہوی

;

ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے
کتنی گزری ہوئی باتوں کا خیال آیا ہے

قافلہ درد کا ٹھہرے گا کہاں ہم سفرو
کوئی منزل ہے نہ بستی نہ کہیں سایا ہے

ایک سہما ہوا سنسان گلی کا نکڑ
شہر کی بھیڑ میں اکثر مجھے یاد آیا ہے

یوں لیے پھرتا ہوں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی صلیب
اب یہی جیسے مری زیست کا سرمایہ ہے

شہر میں ایک بھی آوارہ نہیں اب کے برس
موسم لالہ و گل کیسی خبر لایا ہے

ان کی ٹوٹی ہوئی دیوار کا سایہ آزرؔ
دھوپ میں کیوں مرے ہم راہ چلا آیا ہے