EN हिंदी
ہم نے جب درد بھری اپنی کہانی لکھی | شیح شیری
humne jab dard bhari apni kahani likkhi

غزل

ہم نے جب درد بھری اپنی کہانی لکھی

کرامت علی کرامت

;

ہم نے جب درد بھری اپنی کہانی لکھی
لوگ کہنے لگے روداد پرانی لکھی

میں نے اک پیڑ سمندر کے جزیرے سے لیا
اور چٹان پہ پانی کی روانی لکھی

اجنبی طرز لئے میں نہیں آیا ہوں یہاں
داستاں اپنی تمہاری ہی زبانی لکھی

چشم محبوب کو نرگس کا لقب تو نے دیا
میں نے شعروں میں مگر ''رات کی رانی'' لکھی

کون سا وقت عمل کا ہے جوانی کے سوا؟
نیند کب آتی ہے؟ پوچھا تو جوانی لکھی

رات جب آئی تو دن بھر کا فسانہ لکھا
جب چلی باد سحر شام سہانی لکھی

باغ فردوس کی لوری میں سناتا کیسے؟
مری قسمت میں تھی آشفتہ بیانی لکھی

خشک تھا میرا قلم کچھ نہیں لکھ پاتا تھا
لکھنے بیٹھا تو بڑی رام کہانی لکھی

تم نے جب حرف کو خوابوں کا سفر کہہ ڈالا
میں نے بھی لفظ کی تعبیر معانی لکھی

نرم و نازک تھا کرامتؔ ترے شعروں کا مزاج
وقت پڑنے پہ مگر شعلہ بیانی لکھی