ہم نے گھٹتا بڑھتا سایا پگ پگ چل کر دیکھا ہے
ہر راہی اک دھندلا پن ہے ہر جادہ اک دھوکا ہے
ہم بھی کسی لمحے کی انگلی تھام کے اک دن چل دیں گے
تو نے تو اے جانے والے جانے کو کیا جانا ہے
ماضی کی بے نام گپھا میں بیٹھے بیٹھے سوچتے ہیں
نگر نگر ہے شہرت اپنی گھر گھر اپنا چرچا ہے
ہم تم دونوں دوست پرانے صدیوں کی مجبوری کے
اس سے بڑھ کر تم ہی بولو اور بھی کوئی رشتہ ہے
آتے جاتے ہر راہی سے پوچھ رہا ہوں برسوں سے
نام ہمارا لے کر تم سے حال کسی نے پوچھا ہے
خود کو پانے کی چنتا نے گیان جگایا دوری کا
گھر اپنا ہے شہر پرایا بیچ میں لمبا رستا ہے
غزل
ہم نے گھٹتا بڑھتا سایا پگ پگ چل کر دیکھا ہے
وشو ناتھ درد