ہم نے دیکھا ہے محبت کا سزا ہو جانا
صبح دیدار کا بھی شام ملا ہو جانا
پہلے اتنا نہ پراگندہ مزاج دل تھا
بے سبب ہنسنا تو بے وجہ خفا ہو جانا
جی کے بہلانے کو دنیا میں سہارے ہیں بہت
سازگار آئے تمہیں ہم سے جدا ہو جانا
ہم ہیں شمع سر باد اور ہو تم موج ہوا
گھومنے پھرنے ادھر کو بھی ذرا ہو جانا
ہم ہیں محروم رہے دامن گل چیں آباد
اپنی تقدیر میں تھا بوئے وفا ہو جانا
کتنی فریادوں کے لب سی کے زباں پائی وحیدؔ
کھیل سمجھے نہ کوئی نغمہ سرا ہو جانا
غزل
ہم نے دیکھا ہے محبت کا سزا ہو جانا
وحید اختر