EN हिंदी
ہم نے اشکوں سے ترا نام لکھا پانی پر | شیح شیری
humne ashkon se tera nam likha pani par

غزل

ہم نے اشکوں سے ترا نام لکھا پانی پر

شبانہ زیدی شبین

;

ہم نے اشکوں سے ترا نام لکھا پانی پر
یوں جلایا ہے سر شام دیا پانی پر

بھیگی پلکوں پہ ابھرتے گئے یادوں کے نقوش
دیکھتے دیکھتے اک شہر بسا پانی پر

موسم نو کی خبر خشک زمینوں کے لیے
تیرتا آتا ہے پتا جو ہرا پانی پر

منحصر چار عناصر پہ ہے انساں کا وجود
نقش مٹی کا بنا آگ ہوا پانی پر

کسی زردار کے آگے نہ پسارا دامن
ایک خوددار کئی روز جیا پانی پر

کون گزرا ہے الجھتا ہوا موجوں سے شبینؔ
دور تک کس کے ہیں نقش کف پا پانی پر