EN हिंदी
ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا | شیح شیری
hum na-qishon ke daur mein kaamil hue to kya

غزل

ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا

امداد علی بحر

;

ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا
اجڑے ہوئے علاقے کے عامل ہوئے تو کیا

ہم کو تو افتخار ہے پیغام یار پر
جبریل آسمان سے نازل ہوئے تو کیا

مدت سے پھر رہی ہے چھری جان زار پر
ہم آج تیغ یار سے بسمل ہوئے تو کیا

داغوں میں اس کے داغ محبت کی بو کہاں
لالے کے پھول ہم سے مقابل ہوئے تو کیا

راحت نصیب ہم کو ہوئی رحمت اے کریم
ٹکرا کے سر بہشت میں داخل ہوئے تو کیا

پھولوں میں زر لٹا نہ گل سرخ کا کبھی
بے فیض لوگ رونق محفل ہوئے تو کیا

اس کی صفت یہی ہے کہ بے مانگے دی مراد
درگاہ میں کریم کے سائل ہوئے تو کیا

آسان ہیں جو ناخن تقدیر تیز ہے
مطلب ہمارے عقدۂ مشکل ہوئے تو کیا

مردوں کو زندہ کیجیے نام آوری یہ ہے
عیسیٰ بناؤ آپ کو قاتل ہوئے تو کیا

ہر دم چراغ دل کی ادھر لو لگی رہے
ہم اپنی یادگار سے غافل ہوئے تو کیا

ہوگا نہ ایک رنگ خزان و بہار کا
بوڑھے اگر جوانوں کے شامل ہوئے تو کیا

اپنے مآل کار سے جب بے خبر ہوئے
حافظ ہوئے تو خاک جو فاصل ہوئے تو کیا

تن سے مفارقت نہیں کرتی تب فراق
تعویذ بھی گلے میں حمائل ہوئے تو کیا

اے بحرؔ باغبان کی منت بلا کرے
دو چار پھول باغ سے حاصل ہوئے تو کیا